2025 Latest News Press Releases

قیصر عباس تو باعزت بری ہوگئے مگر سازش کبھی بے نقاب ہو سکے گی اور برادری کو انصاف ملے گا؟

پروفیسر قیصر عباس نے سروس کا بیشتر حصہ علامہ اقبال کالج سیالکوٹ میں گزارا اس لیے یہاں کا سٹاف اس کے حلقے احباب میں شامل تھا لہذا ان کو واقعے کا علم سب سے پہلے ہوا اور انہوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ واقعے کو خفیہ رکھا جائے مرکزی قائدین یہ معاملہ پوشیدہ رکھا گیا تاکہ قیصر عباس کے کردار پر انگلیاں نہ اٹھیں 13 مئی کو ہونے واقعے کا 18 مئی تک کسی کو پتہ نہیں چلا پھر انہی لوگوں نے سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ تحریک کے ایک سرگرم رکن اسی کالج سے تھے انہوں نے اپنی قیادت کو سب سے پہلے باخبر کیا اتحاد اساتذہ کے مرکزی قیادت سمیت سب کو راولپنڈی سے تحریک کی منتحب صدر کے وڈیو بیان تک علم نہیں تھا جب علم ہوا تو جنرل سیکرٹری پیپلا نے ندیم منور سی او سیالکوٹ سے رابطہ کیا

واقعے کا وہ پہلو جو ابتک صیغہ راز میں ہے وہ یوں ہے کہ سیالکوٹ کی ایک انتہائی با اثر شخصیت کا بہت ہی قریبی عزیز اس سنٹر میں امیدوار کے طور پر شریک تھا اس کی مدد کرنے کے لیے قیصر عباس نے صاف انکار کر دیا اہل دانش کا خیال ہے کہ ایک سازش بورڈ کے افسران سے مل کر تیار ہوئی کہ کیسے قیصر عباس کو انکار اور ایمانداری کا مزہ چکھایا جائے اس مقصد کے لیے منصوبہ بندی میں درجہ چہارم کے ملازمین کو شامل کیا گیا جنہوں نے نو جوابی کاپیاں غائب کر دیں جو چیز قیصر عباس کو بچا گئی انہوں نے کاپیوں کے غائب ہونے کا اندراج بورڈ ریکارڈ میں کر دیا کنٹرولر نے منصوبہ کے مطابق ایف آئی آر پروفیسر قیصر عباس کے خلاف درج کروا دی اور انہیں گرفتار بھی کروایا انکوئری ہوئی تو بورڈ کی انکوائری کمیٹی نے انہیں بے گناہ قرار دیکر اور بعد ازاں محکمہ آنٹی کرپشن نے بے گناہ قرار دیکر ایف آئی آر خارج کر دی اور انہیں چھوڑ دیا اتحاد اساتذہ کا مطالبہ ہے کہ ایسا انکوئری کمیشن بنایا جائے جو معاشرے کے ایسے عناصر پر ہاتھ ڈال سکے جو ناسور کی طرح اس معاشرے کو کو کھا کر رہے ہیں ورنہ یہ کھیل جاری رہے گا اور کئی قیصر اس کا کھلونا بنتے رہیں گے

سیالکوٹ (خبر نگار ) سیالکوٹ شہر میں ہونے واللے واقعے پر سوشل میڈیا پر اتنا کچھ کہا گیا اور ایک دوسرے پر اتنا کیچر اچھالا گیا کہ فلاں کو یہ کرنا چاہیے تھا جو اس نے نہیں کیا کئی سیاسی شعبدہ باری پوائنٹ سکورنگ میں اب تک مصروف ہیں پروفیسر قیصر عباس کی رہائی کو ایک فریق کا کریڈٹ اور دوسرے کا ڈس کریڈٹ بنانے کا عمل ابھی جاری ہے اور شائد اگلے پیپلا الیکشن میں پھر یہ کارڈ استعمال ہو لیکن سیاق و سباق معلوم نہ ہونے کے سبب ایسی بہتات بازیان ممکن ہیں پروفیسر قیصر عباس کی ساری سروس کیونکہ علامہ اقبال کالج سیالکوٹ کی ہے اور وہ چند ماہ قبل ہی پرموشن پر ڈسکولیٹ ہو کر کڑیاں والا گجرات گئے تھے اس لیے علامہ اقبال کالج سیالکوٹ کا سارا سٹاف ان کا ہمدرد اور سپورٹر تھا انہوں نے متفقہ طور پر یہ طے کیا کہ اس معاملے کو سوشل میڈیا سے دور رکھا جائے اور پیپلا کو اس میں شریک نہ کیا جائے اور بااثر شخصیت کا ذکر کہیں نہ کیا جائے کیونکہ یہ اگلے چل کر مشکلات پیدا کر سکتی ہے اور پروفیسر قیصر عباس کو کسی طرح بچایا جائے یہی وجہ ہے 13 مئی کو ہونے والا واقعہ ایک ہفتے تک اوجھل رہا اور تقریباً دس روز بعد کیمونٹی کے علم میں آیا اس وقت تک کیس میں خاصی پیش رفت ہو چکی تھی آسی سٹاف نے دوسرا فیصلہ کیا کہ اب سوشل میڈیا پر لانا ضروری ہے ورنہ بورڈ کا کنٹرولر اسے کسی دوسرے رخ پر لے جانے کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا ہم بطور کیمونٹی اتنے کمزور ہیں کہ گرہوں میں منقسم ہیں حالانکہ ضرورت ہے کہ کچھ ایشوز پر متحد و متفق ہوکر ایسے مواقعوں پر ڈٹ جائیں ورنہ نہ یہ برائیاں جنم ہوں گی اور کئی قیصر عباس اس کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے اور یہ ناسور اس معاشرے کو کھوکھلا کرتا رہے گا ہم بطور اتحاد اساتذہ مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ

تیرہ مئی 2025 کو پروفیسر قیصر عباس پر جھوٹی ایف۔آئی۔آر، بغیر تحقیق کے ان کی گرفتاری اور گزشتہ دو ہفتوں سے، اینٹی کرپشن کے دفاتر میں بہ بطور ملزم، ان کی پیشیاں، انتہائی تشویش ناک عمل ہے۔ یہ قابل مذمت ہے کہ ایک بے گناہ استاد کو محض ذاتی عناد یا امتحانات پر اثر انداز ہونے کے لیے، جھوٹے مقدمات درج کروا کے، ان کے بے پیشہ وارانہ کردار کو داغ دار کرنے کی کوشش کی جائے۔
یہ معاملہ پہلے دن سے ہی، مرکزی قیادت سے پوشیدہ رکھا گیا، جو کسی صورت بھی درست عمل نہیں تھا۔ اس کے پیچھے پروفیسر قیصر عباس کے احباب کی یہ سوچ کار فرما تھی کہ ایک مہذب اور معصوم، استاد کی جگ ہنسائی نہ ہو، اور ان کی عزت پر حرف نہ آئے۔
یہ عمل اپنے آپ میں بھی ہرگز درست عمل نہیں تھا۔ مرکزی قیادت کو اعتماد میں لیتے ہوئے، اس مقدمے کے بارے آگاہ کرنا، ضروری تھا۔ افسوس کہ 14 مئی کا مقدمہ، 23 مئی 2025 کو پبلک کیا ہے۔
بہ ہرحال اب پروفیسر قیصر عباس کو بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن گوجرانوالہ کی تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی اور عدالت نے باعزت بری کر دیا ہے۔ لیکن یہ معاملہ یہاں ہی ختم نہیں ہو جاتا۔
یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔ ایک بے گناہ استاد کے وقار اور عظمت کو مجروح کیا گیا ہے۔ کیا یہ استاد کی فرض شناسی اور دیانت داری کا صلہ ہے کہ انھوں نے امتحانی مرکز میں نقل نہ ہونے دی؟
جھوٹ کی بنیاد پر مبنی مقدمہ، دو ہفتوں کی حوالات، رسوائی، ذہنی و جسمانی تشدد کا ازالہ کیسے ہو گا؟
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلہ کو، اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ ورنہ بااثر اور غنڈہ گرد عناصر ، بیوروکریسی میں اپنے تعلقات کو استعمال کرکے اساتذہ پر بے بنیاد مقدمات درج کرنے کے عادی ہو جائیں گے۔
اس لیے ہمارے مطالبات درج ذیل ہیں، جن پر عدم عمل درآمد کی صورت میں، پی۔پی۔ایل۔اے احتجاج کرنے پر مجبور ہو گی۔
1۔ متعلقہ بورڈ کے چیئرمین، کنٹرولر امتحانات سمیت تمام ذمہ دارانہ کو شامل تفتیش کیا جائے،!
2۔ مجرمان کو عدالت کے کٹہرے میں لاکر ، قرار واقع سزا دی جائے!
3۔ فرض شناس پروفیسر قیصر عباس سے تحریر معافی مانگی جائے!
4۔ پروفیسر قیصر عباس کے خلاف جھوٹا مقدمہ بناکر، ان کو بدنام کرنے پر حرجانہ ادا کیا جائے!
5۔ امتحانات میں امتحانی مراکز کو محفوظ بنانے کے جامع پالیسیاں بنائی جائیں!
6۔ اساتذہ کے خلاف موصول ہونے والی شکایات کو محکمانہ سطح پر تحقیق کرنے کے بعد، دیگر کاروائی عمل میں لائی جائے!

Related posts

حکومت کی سیاسی مرضی بھانپ کر پے اینڈ پنشن کمیشن کے چیرمین مستعفی

Ittehad

لیڈران اتحاد اساتذہ اپنے ڈویژن کے اسسٹنٹ و ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی دو ہزار تئیس کی اے سی آر جلد بجھوائیں

Ittehad

لاہور ڈویژن میں سی ٹی آئیز کی 228 آسامیاں خالی ہیں تفصیل جانیے

Ittehad

Leave a Comment