انجمن ترقی پسند مصنفین کے پلیٹ فارم سے منعقدہ اس رنگا رنگ تقریب میں پروفیسر ڈاکٹر مقبول گیلانی کی شخصیت اور فن پر گفتگو کی گئی علاؤہ ازیں مہمان خصوصی مقبول گیلانی اور پنجابی و سرائیکی کے گلوکاروں نے گائیکی سے شرکا کو محضوظ کیا
لاہور ( خصوصی رپورٹ) لاہور کے باسیوں نے27 ستمبر کی شام ملتان بلکہ جنوبی پنجاب کی معروف شخصیت پروفیسر مقبول حسین گیلانی کے ساتھ منائی انجمن ترقی پسند مصنفین نے اس تقریب کا اہتمام پاک ٹی ہاؤس میں کیا پروفیسر مقبول گیلانی سرائیکی و پنجابی کے معروف شاعر ،ادیب ،محقق ،دانشور ،مترجم ،براڈکاسٹر اور نامور استاد کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں اس شب لاہور کے دوستوں کی محبتیں سمیٹنے ملتان سے لاہور تشریف لائے یہ خصوصی نشست مشہور دانشور رانا محبوب اختر کی زیر صدارت منعقد ہوئی پروفیسر رانا اسلم پرویز ،انجمن کے مرکزی صدر کامریڈ تنویر احمد خاں ،جاوید آفتاب اور صاحب صدر رانا محبوب اخترنے پروفیسر ڈاکٹر مقبول گیلانی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر بات کی معروف لکھاری الیاس کبیر کی پروفیسر مقبول گیلانی پرایک تحریر جو مقبول گیلانی کی شخصیت کے تقریباً سبھی پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے تھی لاہور کی ایک پروفیسر خاتون نے پیش کی جسے ذیل میں آپ کی نظر کیا جا رہا ہے تقریب میں مہمان خصوصی جناب مقبول گیلانی اور بہت سے مرد وخواتین نے مشہور گیت ،نظمیں اور صوفیانہ کلام گاکر شرکا محفل کے دلوں کو گرمایا
معروف ادیب جناب الیاس کبیر کی جو تحریر پڑھ کر سنائی گئی آپ کی نظر
گول باغ میں “مقبول” …… گیلانی
ملتان کا گول باغ بھی ایک عجب جادو نگری ہے۔ یہاں شعر و ادب کے کتنے ہی چہروں سے شناسائی ہوئی۔ یہیں پر اردو اکادمی کو”غفرلہ“ ہوتے دیکھا۔ اکادمی کے ایک اجلاس میں ایک مجذوب کی شرکت اور خود کش دھماکوں سے خوف زدہ ادیبوں (جس میں مجھ جیسا لا ادیب بھی شامل تھا) کو بھاگ کر یہیں پر پناہ اور سانس ایک ساتھ لیتے دیکھا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں پر ملتان آرٹس فورم کے اجلاس کے بعد سیون الیون ہوٹل میں ہم سب سے زیادہ زندہ شخص خالد سعید کو ایف ایکس کار سے پرنسٹن کا سگریٹ سلگائے باہر نکلتے اور مزے مزے کی باتیں کرتے دیکھا۔ خالد سعید کے ساتھ استادی عامر سہیل ”بیاضِ آرزو بکف“ تھامے اور شوکت نعیم قادری”نتائجِ فکر“ کے ساتھ جلوہ گر ہوئے۔ یہیں پر ہی ”دال تغاری“ کھاتے ہوئے احمد ندیم تونسوی کی دلچسپ گفتگوئیں سنیں۔اسی گول باغ میں ڈاکٹر علی اطہر کو ”اُچٹتی نیند کا نوحہ“ پڑھتے ہوئے دیکھا۔ اسی جگہ ساحر شفیق کو ”خود کشی کا دعوت نامہ“ تقسیم کرتے ہوئے اور مبشر مہدی کو اپنی ضخامت کی مطابق قہقہے لگاتے دیکھا تو دہل گیا کہ ”ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں ”ہے“ اور یہی وہ مقدس اور پاک پوتر آستانہ ہے جہاں پر ہم سب کے مرشد، حضرت ڈاکٹر سید مقبول حسن گیلانی دامت برکاتہم کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔
سرخ ٹی شرٹ، سیاہ عینک، جینز اور جوگر مل کر بھی ان کی عمر کی چغلی کھاتے نہ روک سکے۔ اس میں بنیادی وجہ تو ان کا ’فارغ البال‘ ہونا تھا۔ قرائن و شواہد ان کے بعض دیگر معاملات کی طرف بھی اشارہ کناں تھے۔ یہ بحث کسی اور وقت، کسی اور کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، لیکن بہرحال وہ اپنی گفتگو اور چال ڈھال میں چار چول چوکس دکھائی دیے۔
گیلانی کی شخصیت کی کئی جہتیں ہیں اور ہر جہت ایک دوسرے سے گتھم گتھا بھی ہے اور شیر و شکر بھی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے پروفیسر ہیں اور وہ بھی اسلامیات کے۔ گویا کریلا اور نیم چڑھا کے مصداق۔ لیکن ان میں پروفیسروں والی ایسی کوئی نشانی نہیں پائی جاتی۔ میں نے اپنی حیاتِ مستعار میں اسلامیات کے ایسے بہت کم پروفیسر دیکھے ہیں جو شگفتہ مزاج بھی ہوں۔ شعری ذوق بھی عمدہ پایا ہو۔ پارلیمانی اور غیر پارلیمانی ہر طرح کے جملے سر کر لینے کی ہمت اور حوصلہ بھی رکھتے ہوں، لیکن ہمارے گیلانی میں یہ سب خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ وہ ہنس مکھ ہیں اور مسکراتی آنکھوں سے بہت سوں کو قائل بلکہ گھائل کرنے کے لیے کافی محنت ِ شاقہ کرتے ہیں لیکن ان میں سے شاید ہی کوئی اُن کے دامِ تذویر میں پھنس جائے اور جو اُس میں آجاتے ہیں پھر وہ کہیں کے نہیں رہتے۔ گیلانی غریبوں کے خون کے علاوہ سب کچھ پی لیتے ہیں۔اکثر اوقات انھیں دوستوں کے غیر مناسب رویے سے غصہ آتا ہے تو اسے بھی پی جاتے ہیں۔ سگریٹ نوشی میں تو انھیں مہارتِ تامہ حاصل ہے۔ بشرطیکہ سگریٹ کسی اور کے ہوں۔ البتہ نوشی ان کی اپنی ہوتی ہے۔ اور اس میں وہ کسی کی سانجھے داری نہیں کرتے۔
ویسے تو گیلانی اسلامیات کے پروفیسر ہیں لیکن اِن کی اپنے شعبے والوں سے مناسب راہ و رسم نہیں۔ ان میں سے بعض تو انھیں فاسق و فاجر تک کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ یہ مذہبی کانفرنسوں میں شریک ہوتے ہیں اور اپنی علمی دھاک بٹھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن جب مذہب میں شعر و ادب کا تڑکا لگاتے ہیں تو منتظمین خشیت ِ الٰہی سے کانپ اٹھتے ہیں۔ چناں چہ زاہدِ تنگ انھیں کافر سمجھتے ہیں اور کافر بھی انھیں “مسلمان” نہیں گردانتے۔ گیلانی اردو اور سرائیکی کی تقریبات میں بھی جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ وہ شعبۂ اسلامیات سے متعلق ہونے کے باوجود اردو اور سرائیکی کے انٹرویوز اور زبانی امتحان (وائیواز) میں نظر آتے ہیں تو یقین آجاتا ہے کہ:
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
گیلانی موسیقی کے رسیا بلکہ کن رسیا ہیں۔ وہ نہ صرف خود موسیقی سنتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی بے خواہش اور بے وجہ سنا دیتے ہیں۔ چوں کہ خدا نے انھیں سر اور تال سے شناسائی دے رکھی ہے اس لیے کوئی ادبی اجلاس ہو، کسی کتاب کی رونمائی ہو، کوئی کانفرنس یا سیمینار ہو وہ اپنی آواز کا جادو جگا کر فاتح قرار پاتے ہیں۔ خواجہ فرید سئیں کا کلام اور دیگر لوک گیت انھیں ازبر ہیں جنھیں وہ بے موقع و محل سناتے چلے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ تو مذہبی تقریبات میں بھی کچھ نہ کچھ سنانے کے موڈ میں ہوتے ہیں اور اس میدان میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ آپ انھیں ایف ایم ریڈیو پر دیکھیں گے جہاں وہ فیس بک پر براہِ راست دکھائی دیتے ہیں تو ہمیں اِن جیسا کوئی راست گو نظر نہیں آتا۔ وہ فرمائشی گانا لگاتے ہوئے پہلے خود سرشاری میں جھومتے ہیں بعد ازاں جھومنے کی باری سامع کی ہوتی ہے۔ اس دوران اگر قسمت کی ماری کوئی صنف ِ نازک کوئی کمنٹ کر بیٹھے تو پھر اللہ دے اور بندہ لے کے مصداق وہ ٹرک پسند ادب سے استفادہ کرتے ہوئے ایسے ایسے اشعار اور گانے سناتے ہیں کہ وہ بے چاری شرماتے ہوئے آف لائن ہو جاتی ہے لیکن اُس کی یہ شرماہٹ گیلانی کے حسن ِ جمال کی توثیق قرار پاتی ہے۔
:
چٹڑے پدھر تے بہہ کر دِل لٹوائی ہم وے
ایں سانگے اتھ آئی ہم وے
جنھیں وہ اس طرح لہک لہک کر سناتے ہیں کہ لوک موسیقی سے کوسوں دور رہنے والا بھی ایک بار تو جھوم اٹھتا ہے۔ توسیع پسند قوم میں گیلانی کے گائے ہوئے گیتوں کی فہرست میں بھی توسیع ہوچکی ہے۔ اب وہ اپنی ماں بولی کے علاوہ اردو اور پنجابی کے گیتوں پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ گیلانی ہمہ وقت ہر دم ہر کسی کے لیے تیار ہوتے ہیں۔اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسروں کی مدد کی جائے (مالی کسی طور نہیں)۔ وہ ہر وقت ہر کسی کے لیے ارزاں دستیاب ہوتے ہیں۔ کسی نے کوئی کام کہہ دیا تو یہ پھر اسے ذاتی کام سمجھ کر اس کی تکمیل کے لیے جت جاتے ہیں۔ بہرکیف فی زمانہ یہ خوبی ناپید ہو چکی ہے۔ ایسے لوگ اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
تصویر کھنچوانا گیلانی کا ایک اور مقبول مشغلہ ہے۔ وہ موقع کی تاک میں رہتے ہیں اور بعض اوقات (اسے اکثر اوقات بھی کہہ سکتے ہیں) تو پس منظر کی پروا کیے بغیر صرف پیش منظر کو دیکھتے ہوئے تصویر کھنچوانا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں اور ہمارے ملتان میں وہ اکیلے ہی اس منصب پر فائز ہیں۔ عام طور پر بلکہ روزانہ کی بنیاد پر دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ چھپائی جانے والی تصویر کی برسر عام اور پوری دیدہ دلیری کے ساتھ فیس بک پر رونمائی کر دیتے ہیں۔ لیکن انھیں تصویر نمائی کے لیے یہاں پر تنگی داماں کا گلہ رہتا ہے چناں چہ وہ وسعت ِ بیاں کے لیے اسے وٹس ایپ، مسینجر، گروپس اور دیگر متعدد جگہوں پر بھی چپکا دیتے ہیں۔ بعد ازاں اُس تصویر پر دوستوں کی نہایت دلچسپ اور اچھوتی آرا پڑھنے کو ملتی ہیں جن میں سب سے زیادہ مزیدار اور منفرد رائے لالہ ظہور ندیم کی ہوتی ہے (جو گیلانی کی ”رگ رگ“ سے واقف ہیں)۔ اُن کی رائے اردو اورسرائیکی کی آمیزش سے تیار کی جاتی ہے۔
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
تصویر کشی کا ذکر چل ہی نکلا ہے تو کیوں نہ سب باتیں آج رو برو کریں۔ اس حوالے سے ان کے بہت سے قصے زبانِ زد عام ہیں۔ جنھیں وہ خود بھی لہک لہک بلکہ بہک بہک کر سناتے ہیں۔ انھوں نے تصویر بازی کا یہ شوق بہت سی مہ جبینوں کی قربت حاصل کرنے کے لیے اپنایا تاکہ عشق بازی کا مرحلہ بھی طے کر ہی لیا جائے لیکن شاید اُن کے ذہنِ نارسا میں میر کا یہ شعر ہو گا:
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
چناں چہ وہ عشق جیسے بھاری پتھر کو اٹھا نہ سکے تو چوم کر چھوڑ دیا۔
گیلانی سفر اور حضر میں اپنی کتاب اور سرائیکی اجرک ہر وقت ساتھ رکھتے ہیں کہ کس وقت سفر درپیش ہو جائے تو “زادِ سفر” کاہونا ضروری ہے۔ انھوں نے ہمارے زمانے کی بڑی شخصیات کو اجرک پہنا رکھی ہے۔ یہ شرفِ قبولیت ملتان آرٹس فورم کے کچھ دوستوں کے علاوہ ادب، سیاست، شوبز، سپورٹس اور کچھ دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات حاصل کر چکی ہیں، بلکہ ان میں سے فیض پانے والوں کا دائرہ تو اب سات سمندر پار ہمارے سابق نوآبادیاتی آقاؤں تک پھیل چکا ہے۔ اُن کی برطانیہ یاترا ہوئی تو وہ وہاں کی ہر گلی، ہر کوچہ یہاں تک کہ ہر پارک میں انھیں جہاں بھی کوئی حسین چہرہ دکھائی دیا تو انھوں نے کرکٹروں جیسی ڈائی لگائی اور فوراً لپک کر سرائیکی ادب و ثقافت کا پرچار کر دیا۔ یہاں تک کہ ہوائی میزبان خواتین سے بھی راہ و رسم بڑھا کر انھیں فیض پہنچا دیا۔ جس کے عکسی شواہد اُن کی وال پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
اُن کی برطانیہ یاترا کے بہت سے قصے ایسے ہیں جنھیں اگر برسرعام سنایا جائے تو ”صالحین“ پروفیسروں کا مخصوص طبقہ مزید اُن کے خلاف ہوجائے گا۔ وہ پہلے بھی متعدد بار اُن کی یہ ”صالحیت“بھگتا چکے ہیں۔ لیکن وہ پھر بھی ظلمت کو ”ضیا“اور صر صر کو صبا نہیں کہتے۔
گیلانی اس وقت عمر کے اُس پیٹے میں ہیں جہاں بال و پر نہ بھی ہوں تو شخصیت کی اپنی ایک خاص کشش ہوتی ہے۔ لیکن وہ یہاں بھی اپنی انفرادیت کو نمایاں کرنے میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایک بار تو انھوں نے اپنے “گنج ہائے گراں مایہ” پر وِگ بھی لگائی تھی یا شاید کسی نے اِن کے سر مبارک پر رکھ دی تھی۔ لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ مقبول نے اسے خود ہی کہیں سے قبول کروا کر اسے اپنے سر پر سجا لیا تھا، لیکن بعد ازاں اُنھیں احساس ہوا کہ یہ تو اُن کے “حسنِ فراواں” میں حائل ہور ہی ہے، چناں چہ اسے پھینک دیا تاکہ کوئی اور “مستحق” اسے قبول کرلے۔
ایک بات جو انھیں سب دوستوں میں نمایاں کرتی ہے وہ اُن کا شانِ بے نیازی ہے۔ آپ اُن سے جس لہجے اور رویے سے بات کریں وہ غیر محسوس رہتے ہیں اور بہرحال یہ ہمت اور حوصلہ ہر کسی میں نہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ان کے مزاج میں پائی جانے والی شگفتگی کی فراوانی ہے اور شاید اسی لیے اپنے بارے میں کسے گئے جملے اور استہزائیہ کو بھی قہقہوں میں اڑا دیتے ہیں۔
ملتان آرٹس فورم اور گیلانی کا تعلق کئی برسوں پر محیط ہے۔ یہ جب سے فورم کے صدر منتخب ہوئے ہیں انھوں نے فورم میں نئی روح پھونک دی ہے اور متعدد نئے چہرے متعارف کرائے ہیں۔ ایک مرتبہ انھیں فورم کے الیکشن میں شکست ہوئی تو انھوں نے فورم میں آنا ہی چھوڑ دیا۔ ان کے بغیر فورم کی فضا پھیکی پھیکی سی محسوس ہوتی تھی۔ لیکن اگلے الیکشن میں یہ صدر منتخب ہو گئے تو شبانہ روز اس کے لیے وقف کردیا لیکن اس کے ساتھ انھوں نے اپنی کسی ”شبانہ“ کو بھی پورا وقت دیا تاکہ انھیں کسی اور دوشیزہ کی “کہہ مکرنیوں” کا موقع نہ ملے۔ گیلانی بعض اوقات اپنی بے بسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے خود کو ممنون حسین سمجھ بیٹھتے ہیں حالاں کہ ان کے حالات و واقعات دیکھ کر تو ٹرمپ بھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتا ہو گا۔ چوں کہ گیلانی اور فورم کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اس لیے کچھ دوست اپنی بے پناہ مصروفیات کے باعث ان کا فون نہ سن پائیں تو یہ اس عمل کو اُن کی شانِ بے نیازی سے زیادہ بے اعتنائی سمجھ بیٹھتے ہیں اور کبھی کبھار تو اتنے عاجز آ جاتے ہیں کہ چولی اتارنے پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوسکا۔ کیوں کہ ان کے سامنے خالد سعید جیسے بے ریا دوست کی محبت جگمگاتی ہے۔
فورم کے اجلاسوں میں گیلانی کی مستقل رائے نپی تلی اور دو ٹوک ہوتی ہیں۔ انھیں ہر تحریر “جاندار” اور “شاندار” دکھائی دیتی ہے۔ اور تخلیق کار کو فورم میں خوش آمدید اور مبارک باد دینا تو ان کے فرضِ منصبی میں شامل ہے۔ یہ فورم کی محبت میں گھر سے گول باغ تک خراماں خراماں پیدل ہی آتے ہیں۔ اس بابت ان سے پوچھا جائے تو وجہ چہل قدمی بتاتے ہیں لیکن دراصل ان حالات میں کہ جب پٹرول کی قیمتیں ساتویں آسمان پر پہنچ جائیں وہ اپنی گاڑی کو تکلیف نہیں دینا چاہتے۔ لیکن اس دوران اُن کی نظر کسی دوست کی گاڑی پر پڑ جائے تو فوراً چہل قدمی سے بے نیاز ہو کر وہاں اپنے قدم مبارک رنجہ فرما دیتے ہیں۔
گیلانی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی ایک اور سبک دوشی بھی کر چکے ہیں اور وہ ہے ان کی اہلیہ مرحومہ جنھیں وہ زوجہ ماجدہ کہتے ہیں۔ وہ سرشاری کی کیفیت میں خود کو “بیوہ” بھی کہہ دیتے ہیں اور اسی ناآسودہ “بیوگی” میں انھوں نے بہت سے “مقاماتِ آہ و فغاں” عبور کر لیے ہیں۔ ان کا شمار ان پروفیسروں میں بھی نہیں ہوتا جو ریٹائرمنٹ کے بعد ٹوپی سر پر سجائے، ایک ہاتھ میں تسبیح، دوسرے میں دودھ کی بالٹی تھامے خراماں خراماں بازار سے ایسے گزرتے ہیں جیسے:
نہ انجن کی خوبی نہ کمالِ ڈرائیور
چلے جا رہی ہے خدا کے سہارے
گیلانی ایک سچا زمیں زاد ہے۔ وہ اس خطے کی تاریخ، روایات اور اساطیر میں رچا بسا ایسا شخص ہے جو انسان دوستی کو اپنا بنیادی وظیفہء حیات سمجھتا ہے۔ وہ کسی بھی خطے کی کلیدی شناخت مقامیت کو قرار دیتے ہیں۔ بالخصوص اس خطے کی مقامیت اپنا مخصوص پس منظر رکھتی ہے جس نے مزاحمت کا نیا بیانیہ تشکیل دیا ہے۔ جس میں گولی اور گالی کی بجائے جھمر ہے۔ گیلانی کا نقطہ نظر ہے کہ وہ اگلے جنم میں بھی ملتان میں ہی رہنا پسند کرے گا کیوں کہ انھوں نے جنت مکانی شمیم عارف قریشی کے اس شعر کو اپنے اندر اتار لیا ہے:
نام تیڈے کوں کافی کیتا جگ وچ گاندے رہسوں
اساں ملوہا درشن کیتے ول ول آندے رہسوں
گیلانی کی ملتان سے بے انت جڑت کی ایک وجہ اسلم انصاری کا یہ شعر بھی ہوسکتا ہے:
وسعت ِ عالم ایک طرف، ملتانِ معلی ایک طرف
سچ پوچھیں تو ہم لوگوں کو شہر ہمارا کافی ہے






