دھرنے کے شرکا اور جوش جذبہ دیکھ کر حکومت اپنا فیصلہ بدل لے تو بدل لے ورنہ ابتک تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل سرکاری ملازمین کا غیر فطری اتحاد ایک مرتبہ پھر اسلام آباد میں دھرنا دینے کے لیے اکٹھے ہو رہا ہے نومبر میں بھی یہ لوگ اکٹھے ہوئے تھے وعدے وید کر کے انہیں ٹال دیا گیا حکومت کو ان گروپوں کا تجزیہ کرنے کا وقت مل گیاکون کون سے لوگ ہیں ہر ایک کی طاقت کتنی ہے ڈیمانڈذ کی نوعیت کیا ہے حقیقت یہ ہےکہ الائنس میں شامل کئی گروپس کی شمولیت برائے نام ہے صرف لیڈران اور چند افراد اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں اور اپنا قد بڑھانے کی کوشش کر تے ہیں ان کی اپنی کیمونٹی میں کوئی نمائندہ حثیت بھی نہیں حکومت نے سب پتہ کروا لیا ہے اور اپنا لائحہ عمل تیار کرلیا ہے کلرک۔چھوٹے اساتذہ اور ہیلتھ ورکرز ان مجمعوں کی جان ہوتے ہیں ذرائع کے مطابق یہ سب نان گزیٹڈ کیٹگری میں آتے ہیں لہذا انہوں نے ان کے لیے بیس فیصد اضافے کا پلان بنایا ہوا ہے اور باقی شامل واجے اسی تنخواہ پر کام کریں گے نو مبر کے مذاکرات میں تمام ملازمین کو ایک وعدہ دیا کہ جنوری تک تمام مطالبات کے نوٹیفیکیشن جاری ہو جائیں گے مگر کچھ بھی نہ ہوا دھرنا سے ایکدایک دن قبل پھر بلا لیا مذاکرات میں نمبر ون پر تمام ملازمین کے لیے یکساں الاؤنس پر حکومتی چال بازوں نے ایسا اعداد وشمار کا گورکھ دھندہ اور فارمولا پیش کیا جو اکثر کے سروں سے گزر گیا وضاحت طلب کی تو جو سمجھ آئی وہ ان کے مطالبات سے یکسر مختلف انتہائی کم اور چکر بازی تھی تو مذاکرات چھوڑ کر آ گئے اب کوشش کر رہے ہیں کہ حکومتی توقعات سے زیادہ لوگ اکٹھے ہو جائیں اور حکومتی حلقے کچھ کرنے پر مجبور ہو جائے