2022 HED News Latest News Press Releases

آزادی صحافت کے داعیوں نے دباؤ میں آ کر اپنے استاد کی پریس کانفرنس نہ ہونے دی 

ان کی پریس کانفرنس حرف بحرف آپ کے پیش خدمت ہے اسے اپنے حلقوں میں شئیر  کریں تاکہ ثابت ہو کہ آج کے سوشل میڈیا دور میں آواز کو یوں دبایا نہیں جا سکتا

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شبیر سرور ان لوگوں میں ہیں جو اپنے حق کے لیے لڑتے ہیں اور کبھی مفاہمت نہیں کرتے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کے دور میں بے شمار اساتذہ کی حق تلفی کر کے سفارشی تقرریاں کی گئیں اکثریت نے اس زیادتی کو برداشت کر لیا مگر ڈاکٹر شبیر سرور نے حق کے لیے ہر ممکن حد تک لڑنے کا عہد کر رکھا ہے ان کے بلند حوصلے کو دیکھتے  ہوئے کچھ ممبر سنڈیکیٹ نے معا ملہ  چند روز ہونے والی سنڈیکیٹ کی میٹنگ میں اٹھایا اور وہاں یہ طے ہو گیا کہ یہ معاملہ متنارعہ ہے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو اس کا فیصلہ کرئے گی مگر ان کے مدمقابل اتنے طاقتور لوگ ہیں کہ انہوں نے قائم مقام وائس چانسلر سے منظوری کو دباؤ میں لا کر منظوری کروالی وہ اس نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے پریس کانفرنس کرنا چاہتے تھے لیکن یہاں پھر زیادتی ہوئی اور پریس کلب انتظامیہ کو دباؤ میں لا کر ان کی بکنگ کینسل کروا دی اور وہ پریس کانفرنس نہ کر پائے ظاہر ہے وہ مقتدر قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ ان کا نکتہ نظر لوگوں تک نہ پہنچ سکے ہم ان کی پریس کانفرنس حرف بہ حرف شائع کر رہے ہیں تاکہ اتحاد اساتذہ کے انصاف پسند لوگ اسے اگےسے آگے شئیر کریں اور وہ  جو وہ طاقتور حلقے چاہتے ہیں ویسا نہ ہو  

پریس کانفرنس 

  • مجیب الرحمن شامی کی بیٹی ڈاکٹر سویرا شامی اور عرفان صدیقی کی تعلق دار ڈاکٹر لبنی ظہیر کے پروفیسر کی  نشست پر ترقی سے متعلق حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں کہ کس طرح اپنی مرضی کے غیر ملکی ریفریز کو ترقی کے کیسز بھجوا کر مرضی کی رپورٹس منگوائی گئی ہیں۔ پروفیسر کی تعیناتی پر ہونے والے گھپلوں سے اندازہ ہو رہا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں کس طرح گریڈ 21 میں بھرتیوں کے لئے میرٹ کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ اور کس طرح دو نمبر طریقے سے پروفیسر بنائے جاتے ہیں۔ سلیکشن بورڈ کی پروسیڈنگز کے مطابق جنوری 2021 میں سکول آف کمیونیکیشن سٹڈیز میں پروفیسر کی 1 آسامی مشتہر کی گئی۔ جس پر 4 امیدوار اہل قرار پائےجن میں یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے سابق ڈین اور کینیڈا سے پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر میاں حنان احمد، ڈاکٹر شبیر سرور، ڈاکٹر سویرا شامی اور ڈاکٹر لبنی ظہیر شامل ہیں۔ مشتہر آسامیوں کی آخری تاریخ گزر جانے کے بعد جامعہ کے رجسٹرار ڈاکٹر خالد خان نے تمام شعبہ جات کے سربراہان کو خط لکھا کہ اپنے اپنے شعبوں میں مشتہر پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کی آسامیوں پر اہل امیدواروں کے تحقیقی کام اور تجربے وغیرہ کی جانچ پڑتال اور سفارشات کے لئے 30 غیرملکی پروفیسرز کی لسٹ فراہم کی جائے۔ رجسٹرار آفس نے سختی سے تاکید کی کہ یہ فہرست ایک شعبہ جاتی میٹنگ میں تمام فیکلٹی ممبران کی مشاورت سے تیار کی جائے اور میٹنگ منٹس بھی رجسٹرار آفس بھجوائے جائیں۔ تاہم سکول آف کمیونیکیشن سٹڈیز میں میٹنگ کے بغیر ہی اندرونی امیدواروں سے فہرستیں لی گئیں۔ یاد رہے اس معاملے پر سب سے بڑی نا انصافی بیرونی یعنی یونیورسٹی کے باہر سے آنے والے امیدوار سے فارن ریفریز کی فہرست نہیں طلب کی جاتی۔ اس طرح فارن ریفریز کے نام صرف ڈاکٹرنوشینہ،  ڈاکٹر سویرا، ڈاکٹر لبنی اور ڈاکٹر شبیر سرور نے دئیے اور سکول کی سربراہ ڈاکٹر نوشینہ سلیم نے 30 ماہرین  کی لسٹ تیار کی اورپر رجسٹرار آفس بھجوا دی۔  فہرست موصول ہونے کے بعد حیران کن طور پر سابق وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد نے ان امیدواروں کے ناموں کو کیسز بھجوائے جو ڈاکٹر سویرا شامی اور ڈاکٹر لبنی ظہیر نے فراہم کئے۔ سلیکشن بورڈ کی پروسیڈنگز کے مطابق پروفیسر کی تعیناتی کے لئے ملائشیاء کے پروفیسر عدنان اور امریکہ کے پروفیسر جوزف روسومانو کو امیدواروں کا کیس بھیجا گیا۔ یہ دونوں غیر ملکی ریفریز اسی شعبہ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عائشہ اشفاق کے پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکریٹ کے سپروائزر و ساتھی محقق ہیں – یعنی اپنی پی ایچ ڈی طالبہ سویرا شامی کی ترقی کا کیس اپنے ہی دونوں سپروائزروں کو ویسی کی ملی بھگت سے بجھوادیا-  ڈاکٹر عائشہ اشفاق کے شوہر نجی ٹی وی پر سویرا شامی کے والد کے ساتھ ٹاک شو کرتے ہیں۔ڈاکٹر عائشہ اشفاق نے ملائیشیاء سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور ملائیشیاء کے ڈاکٹر عدنان ڈاکٹر عائشہ کے پی ایچ ڈی کے ریسرچ سپروائزر تھے۔  ڈاکٹر عائشہ اشفاق نے غیر ملکی ریفری ڈاکٹر عدنان کے ساتھ تحقیقی مقالے بھی شائع کئے ہیں۔ پروفیسر کی تعیناتی پر دوسرے ریفری ڈاکٹر جوزف روسومانو بھی ڈاکٹر عائشہ کے ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی امریکہ میں پوسٹ ڈاک فیلوشپ کے  ریسرچ سپروائرز رہے ہیں اور ڈاکٹر عائشہ اشفاق نے ڈاکٹر جوزف کے ساتھ بھی تحقیقی مقالے شائع کئے ہیں۔ ڈاکٹر عائشہ اشفاق ڈاکٹر سویرا شامی کی پی ایچ ڈی کی سپروائزر ہیں اور ڈاکٹر عائشہ اور ڈاکٹر سویرا شامی مشترکہ طور پر شعبے میں سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر عائشہ اشفاق نے ڈاکٹر سویرا شامی کے ساتھ بھی تحقیقی مقالہ جات شائع کئے ہیں۔ یہاں conflict of interest کا کیس واضح ہو جاتا ہے کہ ڈاکٹر عائشہ نے ڈاکٹر سویرا اور ڈاکٹر لبنی کے حق میں اور دیگر امیدواروں کے خلاف غیر ملکی ریفریز پر اثرانداز ہوئی ہیں۔شعبہ ابلاغیات میں چونکہ پروفیسر کی نشست ایک تھی اور سفارشی امیدوار دو تھے تو طے کیا گیا کہ ڈاکٹر سویرا شامی اور ڈاکٹر لبنی ظہیر کو ایک ہی نمبر پر رکھا جائے گا تاکہ اضافی سیٹ تخلیق کرکے دونوں امیدواروں کو پروفیسر کرنے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔  اس امر کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ریفری کا تعلق ملائیشیاء سے، ایک کا تعلق امریکہ سے اور ایک کا تعلق چین سے ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دو مختلف امیدوار جن کا تجربہ اور تحقیق بالکل مختلف ہوں انہیں تین مختلف ملکوں کے ریفری یکساں طور پر پہلی پوزیشن دے دیں۔ دوسری جانب تفصیلات کے مطابق پروفیسر آف کمیونیکیشن سٹڈیز کی نشست پر منتخب نہ ہونے والے امیدواروں میں ڈاکٹر حنان کے تحقیقی مقالہ جات 30 سے زائد ہیں، ڈاکٹر شبیر سرور کے تحقیقی مقالہ جات 25 ہیں۔ جبکہ سویرا شامی اور لبنی ظہیر کے تحقیقی مقالہ جات 21، 21 ہیں۔ ایسے مقالہ جات جن میں پہلے محقق یعنی ریسرچ مقالہ کے بنیادی محقق کون ہیں ان میں ڈاکٹر شبیر سرور 20 مقالہ جات، ڈاکٹر حنان کے 17 مقالہ جات، ڈاکٹر لبنی ظہیر کے 14 اور ڈاکٹر سویرا شامی کے 11 مقالہ جات شامل ہیں۔ یعنی سب سے ذیادہ تحقیقی پروفائل اور تجربے ڈاکٹر شبیر سرور اور ڈاکٹر حنان کا ہے جو سلیکٹ نہ ہو سکے۔قبل ازیں شعبہ ابلاغیات کےایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر شبیر سرور نے اپنی درخواست میں جو الزامات لگائے تھے وہ الزامات درست ثابت ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر شبیر سرور نے سابق وائس چانسلر پر ملی بھگت سے امیدواروں کے من پسند ریفریز کو کیس بھجوانے کا الزام لگایا تھا جو درست ٽابت ہواسویرا شامی اور لبنی ظہیر کو پروفیسر بنانے کے لئے انھی کے من پسند  ریفریز کو کیس بھیجا گیا۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ کی حکومت آتے ہی وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد نے وی سی کا اگلا ٹینور لینے کے لئے ن لیگ والوں کی سیاسی بھرتیاں شروع کر دیں۔  اس سے قبل جب عثمان بزدار کی حکومت تھی تو وی سی ڈاکٹر نیاز احمد نے عثمان بزدار کی خوشنودی کے لئے پی ٹی آئی کی دور میں سینکڑوں بھرتیاں کیں۔ اور عثمان بزدار کے فرنٹ مین فیاض بزدار کے ذریعے بھرتیاں کی گئیں۔ سلیکشن بورڈ میں ہونے والے گھپلے چھپانے کے لئے پروسیڈنگز سینڈیکیٹ ممبران کو بروقت نہ بھیجی گئیں۔ سنڈیکیٹ کے میمبران نے ڈاکٹر شبیر سرور کی درخواست پر کاروائی کرتے ہوئے لبنی اور سویرا کی تعیناتی کی منظوری نہیں دی بلکہ انکوائری کمیٹی بنیادی ہے جس کےمیمبرسردار اصغر اقبال اوررجس اصغر اقبال اوررجسٹرار ہیں

https://s.yimg.com/rq/darla/4-10-1/html/r-sf.html

Related posts

Second Round of Recruitment of CTIs in Govt colleges

Ittehad

غریب مگر ذہین یونیورسٹی طالب علموں کیلئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے وظائف 

Ittehad

  بانی انجمن اساتذہ پاکستان اور سابق صدر پروفیسر محمد حفیظ جنجوعہ انتقال کر گئے 

Ittehad

Leave a Comment