2022 Latest News University / Board News

خدارا پنجاب یونیورسٹی پر رحم کریں! وائس چانسلر میرٹ پر تعینات کریں

یونیورسٹی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟2018 کے الیکشن کی آمد آمد تھی ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر زکریا ذاکر تھے۔ ثاقب صاحب کس بات پر ناراض ہوئے؟ یہ تو یاد نہیں مگر وی سی صاحب کو بلا کر خاصا برہمی کا اظہار کیا گیا۔ شہباز شریف کے وزیر اعلیٰ ہائوس میں آخری ایام تھے۔ اُن کے پاس وی سی پنجاب یونیورسٹی کی سلیکشن کے لیے تین نام سامنے آئے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران وی سی شپ کی دوبہاریں دیکھ چکے تھے۔ دوستوں کے ساتھ دشمن بھی خاصے بنا چکے تھے بشمول اپنے ہی کزن منصور سرور کے جو خود بھی اس وقت یو ای ٹی کے سربراہ ہیں۔ دوسرا نام ڈاکٹر زکریا کا تھا جو حاضر سروس وی سی تھے۔ تیسرا نام ڈاکٹر نیاز کا تھا جو ایکڈیمک شرائط پر تو کوالیفائی کررہے تھے مگر بعض اِدارے ۔۔۔ با خبر اِدارے اُن کے نظریاتی جھکائو پر انگلی اُٹھا رہے تھے۔ شہباز صاحب نے ڈاکٹر نیاز کا نام فائنل کر دیا۔وی سی بن گئے  تو مخلوق خدا بھاگی بھاگی شہباز صاحب کے پاس گئی کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ ان کا تعلق تو فلاں فلاں نظریات سے ہے۔ پنجاب یونیورسٹی پہلے ہی نظریاتی کشمکش کی زد میں رہتی ہے۔ شہباز کہنے لگے پہلے دو نام متنازعہ ہو رہے تھے عدالت اور میڈیا کی نظر میں۔ اس لیے مجھے ڈاکٹر نیاز ہی کے نام کو ٹِک کرنا پڑا۔ اب ہماری حکومت ختم۔ یونیورسٹی کا مقدر ، یونیورسٹی کا نصیب ۔ وقت کروٹ بدلتا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بن جاتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح تمام خواہش مندوں کے قدم وزیر اعلیٰ ہائوس کی طرف اٹھنے لگتے ہیں۔ نواب واجد علی شاہ اودھ کے نواب تھے۔ ان کے آخری ایام پر ستیہ جیت رائے نے ایک فلم بنائی تھی۔ ‘‘شطرنج کے کھلاڑی ’’۔ مگر جب ڈاکٹرز ، پروفیسرز اور ایکڈیمکس بھی شطرنج کے کھلاڑی بن جائیں تو ؟ ایک تو دھوپ تھی موم کے مکانوں پر ۔۔اس پر تم لے آئے سائیبان شیشے کا۔ پنجاب میں 2018 کے بعد سے گورننس کی جو صورتحال رہی ۔ اس پر بات کرنا مقصود نہیں۔ مگر اس کو پنجاب یونیورسٹی کی شطرنج پر کیسے استعمال کیا گیا یہ بات خاصی دلچسپ ہے مگر درد ناک بھی۔ ری سٹرکچرنگ کے نام پر ایسا ایسا نابغہ اہم عہدوں پر بھرتی کیا گیا کہ مغلیہ سلطنت کے زوال کی یاد تازہ ہو گئی۔ ان سب کی ایک فہرست میرے سامنے ہے ۔طنزیہ نظروں سے مسکرا رہی ہے۔ کبھی کبھی تو کھلکھلا کر ہنس بھی پڑتی ہے۔ مگر مقام افسوس ہے کہ 1757 کی جنگ پلاسی کے کرداروں کی طرح ، اس دور کے لکھنؤ کی طرح سب بانکے ہیں،  پڑھے لکھے بانکے، مگر بولتا کوئی بھی نہیں۔ سرگوشیاں ہیں، خوف ہے، دکھ ہے اور کرب بھی ۔ لوں لوں چیخ پکار ہے۔ دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے۔۔ اگر چہ بولتا کوئی نہیں ۔ ہمارے حُلیے، ڈگریاں، لقب ، عہدے اور گائون دیکھو۔ مگر دنیا داری نے ہمیں کیا سے کیا بنا دیا۔ ہم ہر تقریر اللہ کے نام سے شروع کرتے ہیں مگر ہمارا توکل شطرنج کے کھلاڑیوں پر ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کون ہے ۔ پھر ہم اپنے دنیاوی مقاصد کے لیے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ کسی ایک کو سجدہ کرو اور پھر سینکڑوں کو سجدہ کروائو۔ جدید بُت پرستی ۔ ہمیں احساس ہی نہیں حالانکہ ہم بقول میڈیا پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ہم مسلمان بھی ہیں اور پاکستانی بھی مگر ہمارا اصول ہے ، صاحب اور سائیں خوش ہونا چاہیے۔ پہلے تمام انحصار سائیں عثمان بزدار پر تھااور اب قبلہ کا رُخ موجودہ طاقتوروں کی طرف ہو گیا ہے۔ حمزہ شہباز اور نون لیگ کے احباب کی خوشآمد اور قربتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مثلاً ایک میڈیا پنڈت کی بیٹی کو یونیورسٹی میں فوری طور پر پروموشن دے دی گئی۔ دوسرے میڈیا پنڈت کی اہلیہ کو ایک شعبے کا سربراہ بنا دیا گیا۔ تیسرے میڈیا پنڈت کی ایک پسندیدہ شخصیت کی خوش آمد نئے سرے سے شروع کی گئی ۔ چوتھے میڈیا پنڈت کے بیٹے کو لیگل ایڈوائز لگا دیا گیا۔ جنوبی پنجاب سے اویس لغاری صاحب کو حمزہ شہباز تک بطور سیڑھی یا کرین بنا کر استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وائس چانسلر صاحب نے ہر ڈیپارٹمنٹ کے اتنے ٹکڑے کر دیے ہیں کہ اساتذہ رات کو خواب میں نوحے بھی پڑھتے ہوں گے اور گریہ بھی کرتے ہیں۔ خبر گرم ہے کہ یہ سب خواتین و حضرات پروفیسرز طاقتور حلقوں کے علاوہ سیاسی پناہ گاہیں بھی تلاش کرتے دیکھے گئے ہیں۔ کئی کمزور دل اساتذہ کو تو درگاہوں اور عبداگاہوں کے باقاعدہ چکر بھی لگاتے دیکھا گیا ہے۔ دنیادار اپنی بساط بچھائے بیٹھے ہیں اور پاور بروکرز اپنی۔ پورا ملک سیاسی گھن چکر میں گگرفتار ہے۔ پنجاب یونیورسٹی پروفیسرز کوڈر ہے کہ اس افرا تفری میں سیاسی بھیس بدل کر ڈاکٹر نیاز مسلم لیگ (ن) والے نہ بن جائیں اور کوئی کرامت نہ دکھا دیں۔ یہ ایکڈیمکس نہیں ہوتے ، ڈگریاں، وردیاں، عہدے اور گائون اوڑھ لیتے ہیں۔ چائے کے ڈبے میں پتی ہی ہوتی ہے ۔ نام آپ اسے تپال کا دیدیں یا لپٹن کا ۔ ہم زندہ قوم ہیں اس لیے۔ ہم پاکستانی ہیں، ہمارا DNA صدیوں سے ایسا ہی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے یہ کہانی پھر سہی۔ ایک منظر پاکستان کا ہے، پھر ایک منظر ہر ادارے کا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی بھی بڑے پاکستان کا چھوٹا ماڈل ہے۔ Replica ہے۔ اس تمام اندھیرے اور جبر کے موسم میں اُمید کی ایک تیز کرن حضرت علی کا ارشاد ہے ‘‘میں نے اِرادوں کے ٹوٹ جانے سے خدا کو پہچانا’’۔ڈاکٹر نیاز نے یونیورسٹی کے ساتھ وہ کیا جو پچھلے 75 سال میں پاکستان کے ساتھ ہوا۔ ایک شعبے میں کئی شعبے اور ہر شعبے پر ایسا ایسا نابغہ ہے کہ عقل حیران اور میرٹ پریشان ہو جاتا ہے ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حمزہ شہباز ڈاکٹر نیاز کی خوش آمد کا شکنجہ توڑ کر میرٹ پر فیصلہ کریں گے۔بڑھتے بڑھتے حد سے بڑھ گیا دست ھوسگھٹتے گھٹتے ایک دن دستِ دُعا رہ جائے

Related posts

  معیشت کی زبوں حالی کے اسباب کیا ہیں اور کیا حل ممکن ہے ۔ماہر اقتصادیات پروفیسر ڈاکٹر قیس اسلم کی گفتگو 

Ittehad

گورنمنٹ کالج آف سائنس ملتان کی زمین پر قبضے کی کوشش کے خلاف قراداد مذمت

Ittehad

پنجاب کےریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پینشن  میں یکم اپریل سے دس فیصد اضافے کا نوٹیفکیشن 

Ittehad

Leave a Comment