یہ فیصلہ حکومت سندہ کے سندہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے نتیجے میں دیا گیا
سندہ ہائی کورٹ کے لاڑکانہ بینچ نے سروتھ فاطمہ کیس میں درخواست دہندہ کے حق میں فیصلہ دیا تھا جس کے خلاف حکومت سندھ نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی عدالت عظمیٰ نے سندھ ہائیکورٹ لاڑکانہ بینچ کے فیصلے کو دیکھا اور دونوں اطراف کے دلائل سننے کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا اور اپیل کو برخاست کر دیا سروتھ فاطمہ سندھ حکومت کے ایک سابق سرکاری ملازم کی بیٹی ہے جو اپنی زندگی میں پینشن لیتا رہا اس کے انتقال کے بعد بیوہ کو فیملی پیشن دی گئی اس کے انتقال پر سروتھ فاطمہ غیر شادی شدہ بیٹی کے طور پر پیشن لیتی رہی شادی ہو جانے پر فیملی پینشن کا سلسلہ منقطع ہوگیا مگر پھر اس نے طلاق لی بطور طلاق یافتہ بیٹی اس کی پیشن کے لیے درخواست کو رد کر دیا گیا اس نے کورٹ سے رجوع کیا
کراچی( میڈیا رپورٹ) سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو رکنی بینچ نے جو جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس محترمہ عائشہ ملک پر مشتمل پر پینشن کیس میں ایک تاریخی فیصلہ سنایا مدعیہ سروتھ فاطمہ کے والد سندھ حکومت کے محکمہ روڈ ٹرانسپورٹ کا ملازم تھا جس کا 2002 میں انتقال ہوگیا فیملی پینشن اس کی بیوہ کے نام جاری کر دی گئی 2012 میں بیوہ کا انتقال ہوگیا تو فیملی پینشن غیر شادی شدہ بیٹی سروتھ فاطمہ کے نام منتقل ہوگئی وہ شادی تک یہ پینشن لیتی رہی شادی ہو جانے پر پینشن بند کر دی گئی کچھ عرصہ بعد اسے طلاق ہوگئی تو اس نے طلاق یافتہ بیٹی کے طور پر پینشن کی درخواست دی جسے سندھ حکومت نے رد کر دیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ والد کی موت کے بعد بیوہ پنشن کی حقدار نہیں اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا سندھ ہائی کورٹ نے اس کے حق میں فیصلہ دیا سندھ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی اس اپیل کو سننے کے لیے ایک دو رکنی بینچ تشکیل دیا گیا جس میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس محترمہ عائشہ ملک شامل تھی سندھ ہائی کورٹ لاڑکانہ بینچ کے فیصلے اور دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سنایا کہ حکومت سندھ کا موقف غیر آئینی ہے اور اپیل کو مسترد کر دیا









