گورنمنٹ کالج مظفرگڑھ کو ختم کر کے یونیورسٹی بنانا عوامی خدمت نہیں عوام دشمنی ہے
محترم اجمل چانڈیہ بیوروکریسی کے ہتھے چڑھ گئے ہیں جو شارث کٹ یونیورسٹیاں بنانے کی ماہر ہے گورنمنٹ کالج مظفرگڑھ سالانہ تین ہزار خاندانوں کے بچوں کو تعلیمی زیور سے آراستہ کر رہا ہے جو کالج ختم ہونے سے تعلیم سے محروم ہو جائیں گے
احسن اقدام تب ہوتا جب مظفر گڑھ میں ایک آزاد و خود مختار یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا جاتا وسیع رقبے پر مشتمل جدید سہولیات سے آراستہ اور ماڈرن تعلیم یافتہ فیکلٹی تعینات کر کے اس کی شروعات کی جاتیں اسے عوام اور ماہرین تعلیم اسے خوش آمدید کہتے ایسا اب بھی ممکن ہے
مظفر گڑھ (نامہ نگار) گذشتہ دو دہاہوں سے پاکستان کے سیاستدان اور بیوروکریسی ایک ناکام تجربے کو بار بار دھرا رہے ہیں اور اس سے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کر تے وہ ناکام تجربہ ہے بورڈ بدل یونیورسٹیاں بنانے کا ڈیرہ غازی خان میں ا چھے خاصے نامور کالج کو یونیورسٹی بنایا گیا چکوال ۔مری ،اور نجانے کتنی مثالیں ہیں کہ پبلک کالج کو اس علاقے کی ایک بڑی تعداد کو انٹرمیڈیٹ اور ڈگری لیول کی تعلیم کامیابی سے فراہم کر رہا تھا کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا اس نے خیر یونیورسٹی کیا بننا تھا عوام کی دسترس میں کالج بھی نہ رہا اب اس ہڈ دھرمی کی کئی وجوہات ہیں ایک بڑی وجہ تو بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات ہیں جن سے حکومت پیچھا چھڑانا چاہتی ہے دوسرا اقوام عالم میں نمبر بازی ہے کہ ہمارے ہاں بھی پچیس کروڑ عوام کے لیے اتنے سو یونیورسٹی ہیں وہ الگ بات ہے کہ ورلڈ رینکنگ میں ان کا کہیں ذکر نہیں مقصد شارٹ کٹ طریقے سے یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانا ہے ہا ریسرچ کے ذریعے کوالٹی ایجوکیشن دینا حال یہ ہے کہ ان نوزائیدہ یونیورسٹیز میں نہ ریسرچ کی سہولیات میسر آتی ہیں نہ ریسرچ کروانے والی فیکلٹی دستیاب ہوتی ہے اپنے اہداف کو پورا کروانے کے لیے سیاست دانوں کے کندھوں کا سہارا لیا جاتا ہے انہیں کہا جاتا ہے کہ اپنے علاقے کے کسی نامور کالج کو یونیورسٹی بنوانے کا نعرہ لگائیں آپ کے علاقے کے لوگ بڑھے خوش ہوں گے اور آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا وہ اس دام میں پھنس جاتے ہیں ان سے یہ نہیں کہتے کہ کالج کو ختم کر کے یونیورسٹی کیوں آپ کہیں سے سٹیٹ لینڈ دیکھیں اس پر بلڈنگ بنوائیں جدید سہولیات فراہم کریں دنیا کی اچھی یونیورسٹیوں سے ٹرینڈ ریسرچرز پر مشتمل فیکلٹی لائیں تو یہ میرے علاقے کی حقیقی خدمت ہوگی اس کی بجائے ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور ایسا کام کر بیٹھتے ہیں جن سے عوام کے فائدے کی بجائے نقصان ہو جاتا اور مقبولیت میں اضافے کے غیر مقبول ہو جاتے ہیں لہذا ہم درخواست کرتے ہیں جناب اجمل چانڈیہ صاحب سے کہ ان ہتھکنڈوں سے بچیں اور عوام کی حقیقی فلاح کی راہ پر آئیں